536

جماعت اسلامی اور سینٹ الیکشن۔۔۔ڈاکٹر ابرارخان ماسکو

جیسا کہتے ہیں ہر کسی کو زندگی کامیابی کے لئے کئ موقعے دیتے ہیں ،اسی طرح ہی آج اس
سیاسی دنگل میں جماعت اسلامی کو ایک بہترین موقع مل چکا ہے کہ وہ اپنا آیندہ سیاسی مستقبل کیسے رکھتی ہے۔سینیٹ میں حکومت اور اپوزیشن تقریبآ برابر ہے بس ایک جماعت اسلامی کا ووٹ ہے جوکہ فیصلہ کن ثابت ہوسکتی ہے۔
تھوڑی سیاسی پس منظر کے ساتھ اپنی ناقص رائے رکھنے کی کوشش کرنا چاہتا ہوں کہ یہ بات تو اب اس قوم بھولنا پڑیگی کہ دو بڑی سیاسی جماعتیں آیندہ بھی بڑی رہیگی۔
اس لئے اپنی سیاسی بساط ان کے ساتھ جوڑنا نادانی ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ پچھلے الیکشن میں بھی جماعت اسلامی کے شوریٰ نے یہی سوچا تھا کہ تحریک انصاف کے ساتھ گٹھ جوڑ نہ کیا جائے کیونکہ کے پی کے میں تحریک انصاف کی کارکردگی بری ہے اسلئے ووٹ جماعت اسلامی اور مولانا کو ملیگا اور پھر متحدہ مجلس عمل کی طرح حکومت بنا پائیگی۔

لیکن یہ سارے تجزئیے غلط ثابت ہوئے اور قوم نے ڈبل سے بھی زیادہ ووٹ تحریک انصاف کو دے دیا۔

اب آگے بڑھتے ہیں۔

اگلے الیکشن میں سیاسی گٹھ جوڑ تحریک انصاف کے ساتھ بناکر ہی جماعت کچھ لے پائیگی کیونکہ باقی سب یعنی مولانا اور نواز وغیرہ نے کئ دفع جماعت کو دھوکہ دیا ہے جسکی وجہ سے آج جماعت اسلامی کی مقبولیت تاریخی طور پر انتہائی نچلے درجے کی اچکی ہے۔
اور یہ سب صرف ماضی کے مولانا اور نواز کے ساتھ سیاسی ھم آہنگ فیصلوں کا نتیجہ ہے۔

جماعت اسلامی کو علاقائی سیاست پر سارے فیصلے نہیں کرنے چاہئیے کیونکہ تحریک انصاف اور خاصکر عمران خان انٹرنیشنل سیاسی میدان میں آ کے ہیں اور اب عرب لیگ کے ساتھ ساتھ چین جو کہ آپکے ملک کے معاشی نظام کو آئندہ کئ دہائیوں تک سپورٹ کریں گے۔
اسلئے ان بڑے پلیئرز کو آگے نواز زرداری کی لوگ موزون نہیں ہیں۔
خاص طور پر چین کو اب ایک مستقل حکومت پاکستان کے اندر چاہئیے۔

اب آجائیں پاکستان میں سیاسی میدان پر اور اگلے الیکشن پر۔
اگر تحریک انصاف کو روکا جائیے تو نہ تو نواز اور نہ ہی زرداری اکیلئے حکومت بنانے کے اہل ہوں گے کیونکہ اب یہ تیسری بڑی پارٹی تحریک انصاف اکیلے میں ان سب سے زیادہ مقبول ہے۔

تو یہ پی ڈی ایم تو اپوزیشن حد تک ٹھیک ہے لیکن الیکشن اور حکومت میں یہ اکھٹے کسی صورت نہیں جاپائیں گے ورنہ قوم انکو بہت بڑا شکست دیگی۔

کیونکہ انکا بیانیہ ہی یہ تھا کہ ایک نواز کو چوت کہتا ہے اور دوسرا زرداری کو۔
اب جب یہ لوگوں میں جائیں گے تو یہ دونوں اکھٹے کیا ایجنڈا پیش کریں گے اور انکی سیاسی جماعت اکیلے کی کوئی حیثیت نہیں رہیگی۔

یہ بحث بہت لمبی ہے، لیکن اتنا کہتا ہوں کہ جماعت اسلامی کیلئے بہترین موقع ہے کہ وہ سنجرانی کو ہی سپورٹ کرے۔ علاقائی طور پر اپنا سیاست جاری رکھے،اور حکومت سے فایدہ لیکر ہی عوام کے مسائل حل کرکے آگے بڑھکر آیندہ الیکشن میں میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ میں آکر بہت اچھے لیول پر تحریک انصاف کے ساتھ سنٹر اور تقریباً تمام صوبوں میں ملکر سندھ کراچی میں بھی اچھے پوزیشن میں آسکتے ہیں۔
تحریک انصاف کو جماعت اسلامی کے ساتھ گٹھ جوڑ کے کئ فائدے ہیں،جس میں حال اور مستقبل کے سیاسی فائدے بالکل واضح ہیں۔
انکے سیاسی صورتحال میں سینیٹ میں جماعت اسلامی کی حمایت سے تحریک انصاف جیت کر دونوں ایوانوں میں مظبوط پوزیشن میں ہوگی،اور حکومت جو کہ یہ شکوہ کرتی ہے کہ قانون بنانے میں انکو مشکلات ہیں کیونکہ قانونی ترامیم سینیٹ میں کم۔نمبرز کی وجہ سے ممکن نہیں ، جماعت اسلامی کے ساتھ ملکر یہ شکوہ دور ہوگا اور حکومت قانون بنانے اور ترامیم کے بہترین پوزیشن میں اجائیگی۔

دوسر اھم فایدہ دونوں جماعتوں کو ہے اور وہ یہ ہے کہ تحریک انصاف کا ورکر اور ووٹر اس بات پر احتجاج نہیں کریگی کہ جماعت اسلامی کے ساتھ ایڈجسٹمنٹ ہو،اور ایسے ہی جماعت میں کم لوگ ہی مخالفت کریگی، کیونکہ پہلے بھی جماعت اسلامی اور تحریک انصاف پختونخوا میں اکھٹے حکومت کر چکی ہے ۔
اس طرح دونوں طرف ووٹ بینک خراب نہیں ہوگا۔

اور تحریک انصاف کو سب سے بڑا سیاسی فایدہ ہمیشہ کیلئے یہ ہوگا کہ جماعت اسلامی چونکہ مذہبی پارٹی ہے اسلئے پاکستان کے اندر کسی بھی بڑی پارٹی کے ساتھ مذہبی پارٹی کا ہونا لازم ہوتا ہے کیونکہ اس طرح آپ ایک بہت بڑے طبقہ فکر کو اپنے ساتھ ملاسکتے ہیں۔

خبر کو سوشل میڈیا پر شئیر کریں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں